پنجاب اردو اکیڈمی۔۔۔۔۔۔۔ایک تعارف

پنجاب اردو اکیڈمی کا قیام پنجاب کے ان گنت اردو دانشوروں,قلمکاروں,شاعروں افسانہ نگارں,ریسرچ اسکالروں اور طالب علموں کی امیدوں اور آرزوؤں کا ثمرہ ہے جو سالہا سال تک عملی طور پر اس کی مانگ بھی کرتے رہے۔ ویسے اردو اکیڈمی کی مانگ کی بازگشت گاہے بگاہے پورے پنجاب سے سنائی دیتی رہی۔پنجاب کی مختلف ادبی انجمنیں اور ادبی ادارے ہمیشہ ہی پنجاب اردو اکیڈمی کے قیام کو لیکر پر امید ضرور تھے ۔شاید وہ اسی امید اور آرزو کے پیش ِ نظر برابر یہی کہہ رہے تھے:

زندہ ہیں اس امید اسی آرزو میں ہم
یہ شجر برگ و بار بھی لائے گا ایک دن

ویسے بھی پنجاب اور اردو کا آپسی رشتہ اور تعلق عرصۂ قدیم سے ہے ۔اردو کے مشہور محقق اور ماہر لسانیات حافظ محمود شیرانی نے غیر منقسم پنجا ب کو ہی اردو زبان وادب کا سر چشمہ قرار دیکر اس کے ادبی مقام کو جو سربلندی عطاکی ہے وہ واقعی قابل تحسین ہے۔


پنجاب خواہ دیکھنے میں اب بھی کئی دوسروں صوبوں سے اپنی جغرافیائی حدود کی بنا پر چھوٹا دکھائی دیتا ہے مگر اپنے شاندار ماضی اور گوناگوں اعلا روایات کے لحاظ سے آج بھی دوسرے صوبوں پر سبقت لئے ہو ئے ہے۔ مثلاً یہ پانچ دریاؤں کی ایسی مقدس سر زمین ہے جہاں گوروؤں,پیروں,فقیروں,رشیوں اور منیوں نے لوگوں کو آپسی محبت اور بھائی چارے کا درس دیا۔جہاں متعدد عشقیہ داستانو ں نے جنم لیا اور پروان چڑھیں۔جہاں آج بھی الھڑ مٹیاروں کےگدّھوں کی دھمک راہ چلتے مسافروں کو ٹھہرنے پر مجبور کر دیتی ہے اور پنجابی گبھروؤں کے بھنگڑوں کی لے دو شیزاؤں کے دلوں کی دھڑکنیں تیز کر دیتی ہے۔ جہاں کے جیالے نوجوانوں او ر دیش بھگتوں نے وطن ِ عزیز کی آبرو و انا کی خاطر اپنی جانوں تک کی پروا نہ کی۔ جہاں غیّور قلمکاروں نے خوابِ غفلت میں ڈوبی قوم کو جھنجھوڑ کر ان میں غیرتِ ملّی کی ایسی رو ح پھونکی کہ وہی قوم غلامی کی زنجیریں کاٹنے کیلئے بے تاب ہو گئی۔جس کے آنگن میں اردو جیسی شیریں زباں نے آنکھ کھولی اور اپنے توتلے اور من موہنے بول بول کر لوگوں کے دلوں پر جیت حاصل کی یہاں کے لوگوں نے جہاں اسے سر آنکھوں پر بٹھایا وہیں اس سے ٹوٹ کر محبت بھی کی ۔پنجاب کے نمائندہ اور معتبر شعراو ادبا نے وہ کارہائے نمایاں انجام دئیے جنہیں اہل ادب کی طرف سے بے حد پسند اورسراہا گیا۔نتیجتاً پنجا ب کے ذکر کے بغیر اردو کی ہر تاریخ ادھوری قرار پائی۔


لیکن افسوس تقسیمِ وطن کی مارسب سے زیادہ پنجا ب اور اردو زبان پر پڑی۔متحدہ پنجاب کے شہرت یافتہ شہر لاہور کو حیدرآباد,رامپور ,دہلی ا ور لکھنؤ جیسے دبستانوں میں ایک خاص مقام حاصل تھا۔ پنجاب کے اس نمائندہ شہر کو ایک مرکزی اور ادبی حیثیت حاصل تھی کیونکہ اسی شہر میں اردو کی نمائندہ اور معتبر شخصیات جن میں علامہ اقبال ؔ, حفیظ جالندھری,صوفی غلام مصطفٰے تبسم,ڈاکٹر محمد دین تاثیر,عبدالمجید سالک,امتیاز علی تاج,ظفر علی خاں,کرشن چند,پطرس بخاری,ہری چند اختر,یاس یگانہ,موہن سنگھ دیوانہ,محمود شیرانی,کنہیا لال کپور, گوپال متّل اور فکر تو نسوی وغیرہ قیام پزیر تھیں جو وہاں کی ادبی انجمنوں کو اپنی تخلیقات کے ذریعے زیب و زینت بخش رہی تھیں۔ مندرجہ بالا شہرہ آفاق ادباءشعراء کے علاوہ سخن شناس اور سخن فہم بھی موجود تھے جن کے دم سے رونقِ بزم زندہ تھی۔

متحدہ پنجاب کے اسی شہر سے اتنے اتنے اخبارات شائع ہوتے تھے جتنے کسی اور صوبے سےنہیں چھپتے تھے۔ جن میں سرِِفہرست ظفر علی خاں کا ’’زمیندار‘‘غلام رسول مہر کا ’’انقلاب‘‘مرتضیٰ احمد خاں مکیش کا ’’احسان‘‘ مہاشہ کرشن کا’’پرتاپ‘‘ نانک چند کا’’پربھات‘‘لالہ لا جپت رائے کا ’’بندے ماترم‘‘لالہ دینا ناتھ کا’’دیش‘‘میلہ رام وفا کا’’ویر بھارت‘‘بھائی پرما نند کا’’ہندو‘‘سردار امر سنگھ کا ’’شیرِپنجاب‘‘ شورش کاشمیری کا ’’چٹان‘‘ انجمن احرار اسلامی کا ’’مجاہد‘‘سید حبیب کا ’’سیاست‘‘حمید نظامی کا’’نوائے وقت‘‘ اور نول کشور کا ’’کوہِ نور ‘‘ وغیرہ وغیرہ۔

کثیر تعداد میں چھپنے والے اخبارات کے علاوہ ڈھیر سارے ادبی رسائل و جرائد بھی موجود تھے جو اسبات کا بین ثبوت فراہم کر تے تھے کہ عوام ان کے بے حد تمنائی تھے کیونکہ وہ ان کی گوناگوں طریقوں سے ذہنی تسکین مہیا کرتے تھے اور ادبی ذوق کو جلا بخشتے تھے۔

افسوس یہ ذهنی تسکین مستقل ثابت نہ ہوکر بالکل عارضی ثابت ہوئی۔صدیوں سے قائم بھائی چارے کو کسی کی نظر بد لگ گئی۔ فسادات,مذہبی تعصب,فرقہ وارانہ منافرت کی وبا پھوٹ پڑی۔اہلِ ہندو محبّانِ وطن نے جو خواب وطنِ عزیز کو آزاد کرانے کا سالہا سال پہلے دیکھا تھا وہ خواب ۱۵اگست ۱۹۴۷؁ کو شرمندۂ تعبیر ہوا۔وطن ِ عزیز کو غلامی کی زنجیروں سے نجات تو ملی مگر افسوس اس کے ساتھ نحوست وبربادی بھی دبے پاؤں چلی آئی۔بقول جگن ناتھ آزادؔ؂

خبر نہ تھی بہار جس کی آرزو چمن کو ہے

بہار جس کی جستجو چمن کے بانکپن کو ہے

بہار جس کا انتظار سنبل و چمن کو ہے

جب آ ئے گی تو موجِ زہر ناک ساتھ لائے گی

خزاں کی طرح آئے گی چمن میں پھیل جائیگی

۱۵اگست ۱۹۴۷؁ کو جو آزادی نصیب ہوئی اپنے ساتھ موجِ زہر ناک اور بادسموم لے کر آئی اور پوری فضا کو یکسر مکدّر و پراگندہ کر دیا جس کا اظہار کرتے وقت آج بھی الفاظ زبان کا ساتھ دینے سے قاصر رہتے ہیں۔

ملکی بٹوارے کے اندر جہاں پنجاب کو سب سے زیادہ جانی و مالی نقصان کا خمیازہ بھگتنا پڑا وہیں جغرافیائی تقسیم نے اس کا چہرہ مہرہ بھی مسخ کرکے رکھ دیا۔پنجاب جو اپنے پانچ دریائی پانیوں کی وجہ سے مشہور تھا اسکے دریا بھی بری طرح تقسیم کا شکار ہو گئے۔پنجاب کی تہذیب وتمدّن اور ثقافت بھی دو حصوں میں منقسم ہوگئی۔ اردو کے معروف شاعر راہی معصوم رضا نے تقسیم شدہ پنجاب کی جو بے لاگ تصویر کشی کی ہے وہ آج بھی انسانی رونگٹے کھڑے کر دینے کیلئے کافی ہے؂

اب یہ پنجاب نہیں ایک حسیں خواب نہیں

اب یہ دوآب ہے,سہ آب ہے,پنجاب نہیں

اب یہاں وقت الگ, صبح الگ, شام الگ

ماہ و خورشید الگ, نجم فلک , گام الگ

اس تقسیم نے پنجاب تجھے لو ٹ لیا

مرغزاروں کو تیرے کھا گئی مسموم ہوا

سوہنی اب نہ مہینوال کوئی گائے گا

اب یہاں ہیر کو رانجھا نہ کبھی پائے گا


لیکن افسوس تقسیمِ وطن کے بعد پنجاب میں اردو زبان کو لے کر ایک بڑا لٹ پھیر سامنے آیا۔اردو سے محبت کرنے والوں کی ایک کثیر تعداد مشرقی پنجاب سے نقل مکانی کرکے پاکستان کے مغربی پنجاب میں جاکر آباد ہو گئی اور یوں لگنے لگا جیسے اردو شعرو ادب کی بساط یہاں سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اٹھ جائےگی لیکن یہ خیال خیالِ خام کی طرح غلط ثابت ہوا کیو نکہ زندہ دلانِ پنجاب کے دلوں میں اردو کی محبت کسی نہ کسی شکل میں زندہ رہی مزیدبرآں حکومتِ پنجاب نے اردو سے بے پناہ محبت کرنے والوں کی دیرینہ خواہش کو ’’پنجاب اردواکیڈمی‘‘ کی شکل میں پورا کرکے اردو دوستی کا حق ادا کر دیا۔


پنجاب سے اردو کا رشتہ جتنا پرانا ہے ,پنجاب اردو اکیڈمی کا رشتہ اب اس سے اتنا ہی نیا ہے۔ اس نئے رشتے کو مضبوطی بخشنے میں محبانِ اردو کی سالہا سال سے چلائی جا رہی وہ جاندار اور جامع تحریک تھی جس میں پنجاب کی مختلف ادبی تنظیمیں اور ادبی ادارے برابر شریک نیز ہمہ وقت مستعد اور کوشاں رہے۔ اگرچہ اس دوران کئی مسائل اکیڈمی کے قیام کی راہ میں سنگ و کوہ بن کر حائل ہوتے رہے مگر اہل پنجاب علامہ ڈاکٹر محمد اقبال ؔ کے اس شعر پر پُر عزم طریقے سے عمل پیرا ہوکراور یہی سوچتے ہوئے برابر آگے بڑھتے رہے:


مل ہی جائے گی کبھی منزل لیلٰی اقبالؔ!

کوئی دن اور ابھی بادیہ پیمائی کر


پنجاب میں اردو اکیڈمی کی زوردار چوطرفہ مانگ اور پنجابیوں کے جوش و خروش کو دیکھ کر بالآخر حکومتِ پنجاب نے ۲۰ستمبر ۲۰۰۵؁ کو سوسائٹی رجسٹریشن ایکٹ ۱۸۶۰کے تحت پنجاب اردو اکیڈمی کا اندراج کروادیا جس سے صوبہ میں اردو کی ترقی کے نئے امکانات روشن ہو گئے۔مزید برآں اردو داں اور اردو نواز حلقوں کی دلجوئی کرتے ہوئے پنجاب کی نائب وزیرِاعلا محترمہ راجندرکور بھٹھل نے ۲۶,مارچ ۲۰۰۶؁ میں اکیڈمی کا سنگِ بنیاد امن و آشتی اور آزادی کے بعد اردو کا ادبی جزیرہ کہلوانے والے شہر مالیرکوٹلہ میں اپنے دستِ مبارک سے رکھااور پنجاب اردو اکیڈمی کی عمارت کا کام بڑے زور وشور سے شروع تو ہوا مگر ۲۰۰۷ آتے آتے پنجاب کے سیاسی افق پر ایک نئی سرکار کاسورج طلوع ہوااور عزت مآب پرکاش سنگھ بادل کی مدبّرانہ قیادت میں اکالی بھاجپا سرکار سامنے آئی۔ اُدھر اکیڈمی کی ادھوری اور نا مکمل فلک بوس عمارت بن تو گئی مگر بعد میں بےتوجہی اور نظر اندازی کا شکار ہو گئی۔ پنجاب بھر کے محبّان اردو ایک دفعہ پھر مایوسی کی دلدل میں بری طرح پھنس گئے۔ اکیڈمی کی عمارت انتہائی بے بسی کے ساتھ اپنی یہ دردناک صورتِ حال دیکھ کر خود ہی خون کے آنسو روتی رہی مگراس کے سکریٹریوں کا برابر آناجانا بنا رہا۔ ۲۰۱۲؁ میں سیاسی سطح پر پنجاب میں ایک نئی تاریخ مر تّب ہوئی۔ عزت مآب سردار پرکاش سنگھ بادل کی سرکار جہاں پنجاب میں دوبارہ برسرِ اقتدار آئی وہیں مالیرکوٹلہ کے اندر بھی پہلی مرتبہ ایک تعلیم یافتہ ,مہذّب اور روشن دماغ خاتون محترمہ فرزانہ عالم صاحبہ ممبر اسمبلی وچیف پارلیمانی سکریٹری بنیں۔ آپ نے اپنے شوہر پدم شری محمد اظہار عالم آئی پی ایس ریٹائرڈ ڈی جی پی پنجاب کے ساتھ ملکر مالیرکوٹلہ کی ہمہ جہت ترقی کے نقطۂ نظر سے ایک نئے باب کا اضافہ کیا۔ دونوں نے مل کر قابلِ ستائش اور مثالی کارہائے نمایا ںانجام دئےاور ان مثالی کارناموں میں ایک اہم کارنامہ اکیڈمی کے اندر ایک نئی روح پھونکنا بھی تھا۔ مثلاً ممبر اسمبلی بنتے ہی آپ نے سب سے پہلے چنڈیگڑھ میں ۱۴اگست ۲ ۲۰۱؁ کو پنجاب اردو اکیڈمی کی گورننگ کونسل کی میٹنگ منعقد کروائی۔ جس کی صدارت اکیڈمی ہذاٰ کے چیئرمین اور وزیر اعلا پنجاب سردار پرکاش سنگھ بادل نے فرمائی۔جس میں اکیڈمی کی وائس چیئر پرسن محترمہ فرزانہ عالم صاحبہ کے علاوہ پنجاب وقف بورڈ کے چیئرمین جناب محمد اظہار عالم صاحب کو بھی اسپیشل انوائٹی کے طور پر مدعو کیا۔اس میٹنگ میں پرنسپل سکریٹری ہائر ایجوکیشن کے علاوہ سکریٹری پنجاب سرکار فنانس ڈیپارٹمنٹ , ڈائر یکٹر بھاشاوبھاگ ,پنجاب ,پٹیالہ اور سکریٹری پنجاب اردو اکیڈمی بھی موجود تھے۔


اس اہم میٹنگ میں آپسی غوروخوض کے بعد کئی اہم فیصلے لئے گئے۔مثلاً اکیڈمی کے اسٹاف کی تقرّری,اکیڈمی ہذاٰ کے زیرِ تعمیر آڈیٹوریم اور ادھوری پڑی دوسری منز ل کو مکمل کروانے کیلئے پی۔ڈبلیو۔ڈی پنجاب سے تخمینہ لگوانے کو کہا گیا تاکہ فنانس ڈیپارٹمنٹ سے مطلوبہ رقم جلد از جلد ریلیز کرواکے تعمیر کے باقی ماندہ اورادھورے کام مکمل کروائے جا سکیں۔ اسی میٹنگ میں ایک اہم بات یہ ابھر کر سامنے آئی کہ ڈائریکٹر بھاشاوبھاگ, پنجاب,پٹیالہ کو اردو اکیڈمی کا نوڈل آفیسر مقرر کر دیا اور سکریٹری پنجاب اردو اکیڈمی کو ان کے تابع کرکے اسےدوسرے معنوں میں بے اختیار بنا دیا گیا۔


دراصل یہیں سے کئی نئے مسائل ابھر کر سامنے آنے شروع ہوئے۔ ڈائریکٹر اور سکریٹری کے مابین نظریاتی اختلافات اور آپسی تال میل کے فقدان کیوجہ سے مذکورہ میٹنگ میں لئے گئے اہم فیصلوں میں سے کسی ایک پر بھی عمل درآمد نہیں ہو سکا۔حتیٰ کہ اکیڈمی کے اکاؤنٹ میں جمع شدہ 12.50 لاکھ روپے کی پہلی قسط میں سے ما سوائے بجلی کے بل ادا کرنے کے باقی رقم اکیڈمی کے اکاؤنٹ میں جوں کی توں پڑی رہی۔آخر یہ رسہ کشی میٹنگ ہذاٰ سے لیکر اکیڈمی کے سکریٹری ڈاکٹر محمد اقبال کے عہدہ چھوڑنے تک قائم رہی۔


آخر ۱۰جنوری ۲۰۱۴؁ کو پنجاب اردو اکیڈمی کے نئے سکریٹری پروفیسر (ڈاکٹر) منظور حسن کی تقرری اضافی چارج کے ساتھ عمل میں آئی ۔وراثت میں نئے سکریٹری کو ملی اردواکیڈمی کی ویران ,بے رونق عمارت جو اپنی بے حسی اور بے سروسامانی کی کہانی بیان کرتے نہیں تھکتی تھی۔ اکیڈمی میں نہ سامان تھا اور نہ ہی اسٹاف۔ اُلٹا کچےپکے نشانے بازوں نے اکیڈمی کی کھڑکیوں کے شیشوں کو یو ں توڑ دیا جس طرح کسی گناہِ کبیرہ کے مرتکب انسان کو سرراہ سنگسار کیا جاتاہے۔ اکیڈمی کی چھت پر پڑے سینکڑوں کی تعداد میں اینٹ روڑے دو فرقوں میں ہوئے کسی اچھے خاصے دنگہ کی یاد دلا رہے تھے۔ایک ادبی ادارے میں کسی بے ادب چور نے چوکیدار کی عدم موجودگی میں ایک نہیں بلکہ دو دو چوری کی وارداتیں انجام دیں۔وہ واش بیسنوں اور باتھ رومزکوبڑی دیدہ دلیری کے ساتھ توڑتوڑ کر قیمتی سامان اپنے ساتھ یوں لے گیا جس طرح نادر شاہ دہلی کے لال قلعہ سے شاہجہاں کا بنوایاہوا تختِ طاؤس اپنے ساتھ اٹھواکے لے گیا تھا۔


بالآخر پنجاب سرکار نے اردو اکیڈمی کی بہتری اور صوبہ میں اردو کی ترویج و ترقی کیلئے کچھ ٹھوس اور عملی طورپر قدم اٹھانے شروع کئے۔ مثلاً انتظامی امور اورمالی اختیارات ڈائریکٹر بھاشاوبھاگ سے واپس لیکر اکیڈمی کے سکریٹری کو سونپ دیئے۔ اس خوش آ ئند خبر کا سامنے آنا تھا کہ پنجاب کے ایوان اردو میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ۔ مختلف ادبی تنظیموں اور ادبی اداروں نے پنجاب سرکارکے اس فیصلےکا خلوصِ دل سے خیر مقدم کیا۔


اس کے بعد پنجاب سرکار نے اپنے مؤرخہ ۲جولائی ۲۰۱۴؁کے ایک اہم فرمان کے تحت اکیڈمی کیلئے چھ اسامیاں ڈی۔سی ریٹوں پر عارضی طور پر بھرنے کی ہری جھنڈی دیدی۔ جو مختلف اخبارات میں اشتہارات دےکر بعد میں پر کر لی گئیں۔یکم دسمبر ۲۰۱۴ کو پنجاب سرکار کی طرف سے ایک اور فرمان جاری ہوا جس کے تحت ایکٹ ۲۱۶ کے تحت پنجا ب ارد و اکیڈمی کی ڈی۔ڈی۔او پاورز ڈائریکٹر بھاشا وبھاگ پنجاب سے لیکر سکریٹری پنجاب اردو کے سپرد کردی گئیں۔خرید کمیٹی کے توسط سے اکیڈمی کےلئے بہترین ساز وسامان خیریدا گیا۔ اکیڈمی کو جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ جوڑ کر اسے وائی فائی کرکے ہندوستان کی دیگر اکیڈمیوں کے ہم پلہ بنانے کی کوششیں تیز کی گئیں۔ ا ب انشأاللہ ویب سائٹ کی جانب تما م ترتوجہ مرکوز کر دی گئی ہے۔اردو اکیڈمی کی لائبریری کیلئے تقریباً بیس ہزار کی کتب خریدی جا چکی ہیں۔ اردو اکیڈمی کی لائبریر ی خواہ ابھی چھوٹے پیمانے پر ہی شروع کی گئی ہے تاہم اسے بھی جلد از جلد آن لائن کر نے کی کوششیں جاری ہیں۔ تاکہ اردو دوستوں کو کسی قسم کی دقت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اکیڈمی کے اند ر باہر ساری ہلچلیں دیکھ کر یوں لگنے لگا ہے جیسے اکیڈمی میں چپکے سے بہار آ گئی ہو۔دراصل یہ بہاریں آئیں بھی کیوں نا وہ اس لئے بھی کیونکہ پنجاب سرکار نے اپنے سالان بجٹ ۱۶۔ ۲۰۱۵میں اکیڈمی کیلئے پچاس لاکھ کا بجٹ مختص کرکے ایک تاریخی کارنامہ انجام دیکر پنجاب کے محبان اردو کا دل ہمیشہ ہمیشہ کیلئے جیت لیا ہے۔